نمک کی روز مالش کر رہے ہیں
ہمارے زخم ورزش کر رہے ہیں
سنو لوگوں کو یہ شک ہو گیا ہے
کہ ہم جینے کی سازش کر رہے ہیں
ہماری پیاس کو رانی بنا لیں
کئی دریا یہ کوشش کر رہے ہیں
مرے صحرا سے جو بادل اٹھے تھے
کسی دریا پہ بارش کر رہے ہیں
یہ سب پانی کی خالی بوتلیں ہیں
جنہیں ہم نذر آتش کر رہے ہیں
ابھی چمکے نہیں غالبؔ کے جوتے
ابھی نقاد پالش کر رہے ہیں
تری تصویر، پنکھا، میز، مفلر
مرے کمرے میں گردش کر رہے ہیں