نومبر کی شام - اور بہت ُاداس ہوں میں
آنکھیں بند کر لوں - تو تمہارے بہت پاس ہوں میں
چھونے کی حسریت نجانے کب ختم ہو گئی
ملیوں دور بیٹھی بھی - بہت بیقرار ہوں میں
یاد کی بانہوں میں کیوں تنہا چھوڑ دیا
اس یاد کے ہاتھوں - سخت بے ضار ہوں میں
کل رات پھر انتظار میں گزار دی میں نے
اب ان ُسرخ آنکھوں سے - بہت پریشان ہوں میں
بہت سے کام ہیں مگر مصروف نہیں کرتے
دل کی خاموشی سے - بہت ویران ہوں میں
ہاں ! تیرے فیصلے پر - بہت اعتراض ہیں مجھے
سن لو آج - تم سے بہت خفاء ہوں میں