نگا اٹھی تو زمانے نے بے رخی کر لی
بس اک عذاب میں کٹتی ہے خود کشی کر لی
صدائیں دینے کی عادت نہیں مجھے لیکن
تجھے بلاتی ہے ہر لمحہ خامشی کر لی
میں تجھ کو چاہ کے بھی تجھ کو پا نہیں سکتا
کبھی تو دیکھ لے آ کر یہ بے بسی کر لی
میں جام توڑ کے اب زہر پینے والا ہوں
نہ کام آئی مرے کچھ بھی بے خودی کر لی
مجھے زمانے کے انداز کوئی سکھلا دے
کہ راس آ نہ سکی مجھ کو سادگی کر لی
وہ روح قلب مرے جسم و جاں کا مالک ہے
میں نے اس کا درد چرا کر اسسے دل لگی کر لی
کوئی تو مقصد شعر و ادب کا ہو گا وشمہ
نہ ہوں جو کام کی ایسی ہی شاعری کر لی