نہیں امن و اماں اُس نا خُدا کے پاس
جسے ڈھونڈا بہت اِک دل رُبا کے پاس
پلٹ کر یُوں گیا تھا وہ کسی طرف
کہ بچہ بھاگتا ہو اپنی ماں کے پاس
نہ جانے وہ کہاں پر گم گیا جسے
بہت سنبھال کے رکھا نگاہ کے پاس
ضروری تو نہیں ہے کے ابھی ملے
جو رکھی ہے امانت اُس خُدا کے پاس
کِسے بخشا ہے اِس دُنیا نے آج تک
نہیں ملنی اماں تُجھ کو جہاں کے پاس
بھڑک اُٹھی ہے وہ آگ اب تو یہاں بھی
لگی تھی جو کبھی اِک غم زدہ کے پاس
گُزاری شب میں بھی تو میں جُنید پھر
خیالوں میں ہی پہنچا آسماں کے پاس