نہیں اُلفت کا امکان رضا، تو لے لو میری جان رضا
اِس دنیا کے دستور انوکھے، ہونا کیا حیران رضا
اِس نگری کے لوگ عجب،اِنکے ریت رواج غضب
اور کہیں اب چلتے ہیں، بنتے ہیں مہمان رضا
نابینوں کی بستی میں، غرض وحرص کی مستی میں
تم میں ایسی بات ہے کیا، رکھے تیرا مان رضا
یہاں بھیڑ بہت ہے اپنوں کی من کے میلے رشتوں کی
کیوں اُلٹی سیدہی سوچوں سے ہوتے ہو پریشان رضا
محفل میں بھی جی نہ لگے اور تنہا پن بھی کاٹے
کوئی تو ایسا گوشہ ہو جہاں جینا ہو آسان رضا
جب جینا مشکل ہو جاے ، آس کا سورج ڈھل جائے
پھر دل سے آہ نکلتی ہے تواُٹھتے ہیں طوفان رضا