تجھے رُسوائی کا ڈر ہے نہ آیا کر
بچھڑ جانا ہی بہتر ہے نہ آیا کر
کِسی شاداب قریے میں بسا خُود کو
یہ دل اُجڑا ہوا گھر ہے نہ آیا کر
مِیرا دُکھ تجھ کو بھی اِک دِن ڈبو دے گا
بہت گہرا سمندر ہے نہ آیا کر
گزر جا آئینے جیسا بدن لے کر
یہاں ہر آنکھ پتھر ہے نہ آیا کر
گزرتے ابر کی بھگی ہوئی بخشش
زمیں صدیوں سے بنجر ہے نہ آیا کر
پلٹ جا اجنبی، وہموں کے جنگل سے
یہ پُراسرار منظر ہے نہ آیا کر
بکھرتی ریت کی ڈھانپے گی سر تیرا؟
وہ خود بوسیدہ چادر ہے نہ آیا کر
خوشی کی رُت میں محسن کو منا لینا
یہ فصل دیدہ تر ہے نہ آیا کر