نہ تسلی نہ تشفّی نہ سہارا کوئی
ہم سا دنیا میں نہیں درد کا مارا کوئی
درد کے ایسے سمندر میں بہے جاتے ہیں
جس کا مدت سے نہیں دیکھا کنارا کوئی
کیوں بلاتے ہو ، صدا کون ہے سننے والا؟۔
مان بھی جاؤ نہیں جگ میں تمہارا کوئی
ضبط کے بعد گرا ایک ہی آنسو ایسے
جیسے تھک ہار کے گرتا ہے ستارا کوئی
جان کو، کون کہے جانِ عزیز ایسے میں
دشمنِ جاں بنے جب جان سے پیارا کوئی
موسمِ وَرۡد و سمن میں بھی چمن کو دیکھا
دلِ ویراں کو لبھایا نہ نظارا کوئی