نہ جانے کب قسمت سے مجھے عدل ملے گا
انتظار میں بیٹھا ہوں کب مصائب کا حل ملےگا
حسرتوں کہ سبھی غنچےمرجھاتےجارہےہیں
کس سے پوچھیں کب یہ جہاں مکمل ملےگا
جس کے وصل کی امید پہ جئیے جارہا ہوں
میرادل کہتا ہے کہ ایک دن وہ کنول ملے گا
ایک بار وہ اصغر سے مل کردیکھےتو سہی
پھر وہ عمر بھرمجھ سے مسلسل ملے گا