نہ جانے کیوں ہم سے اب تلک ہیں خفا ہوائیں
Poet: فواد احمد فادی By: فواد احمد فادی, Talagang
نہ جانے کیوں ہم سے اب تلک ہیں خفا ہوائیں
حالانکہ کمرے کے سب دریچے کھلے ہوئے ہیں
ارے میاں ہم تو عادتاً مسکرا رہے ہیں
وگرنہ ہم پہ بہت سے لہجے کھلے ہوئے ہیں
میں جس کی جانب سے دوڑ میں تھا اسی نے مجھ کو
نہیں بتایا کہ تیرے تسمے کھلے ہوئے ہیں
تو جائیے نا ثواب دارین کی غرض سے
یہ سامنے ہی کسی کے پردے کھلے ہوئے ہیں
تو اس اندھیری گلی میں آ تو گیا بھٹک کر
مگر سنبھلنا یہاں پہ کتے کھلے ہوئے ہیں
گواہ رہنا کہ اب تلک کرہ زمیں پر
کئی دلوں میں تیرے صحیفے کھلے ہوئے ہیں
اے پھول کلیوں خدا تمہیں برقرار رکھے
یہاں درندوں کے سارے پنجرے کھلے ہوئے ہیں
یہ رات ملا نے جا کے کوٹھے پہ خود خبر دی
طوائفوں پہ جدید فتوے کھلے ہوئے ہیں
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






