نہ جانے کیوں ہم سے اب تلک ہیں خفا ہوائیں
حالانکہ کمرے کے سب دریچے کھلے ہوئے ہیں
ارے میاں ہم تو عادتاً مسکرا رہے ہیں
وگرنہ ہم پہ بہت سے لہجے کھلے ہوئے ہیں
میں جس کی جانب سے دوڑ میں تھا اسی نے مجھ کو
نہیں بتایا کہ تیرے تسمے کھلے ہوئے ہیں
تو جائیے نا ثواب دارین کی غرض سے
یہ سامنے ہی کسی کے پردے کھلے ہوئے ہیں
تو اس اندھیری گلی میں آ تو گیا بھٹک کر
مگر سنبھلنا یہاں پہ کتے کھلے ہوئے ہیں
گواہ رہنا کہ اب تلک کرہ زمیں پر
کئی دلوں میں تیرے صحیفے کھلے ہوئے ہیں
اے پھول کلیوں خدا تمہیں برقرار رکھے
یہاں درندوں کے سارے پنجرے کھلے ہوئے ہیں
یہ رات ملا نے جا کے کوٹھے پہ خود خبر دی
طوائفوں پہ جدید فتوے کھلے ہوئے ہیں