نہ جستجو ہو کوئی اور نہ شوق کوئی رہے
مدام روح کو پھر کیوں نہ بے کلی سی رہے
ہیں سیم و زر بھی ضروری آسودگی کے لیے
مزہ ہے زیست کا گر علم و آگہی بھی رہے
ہے عقل کام کی شے اس سے کر بھلا سب کا
حریص ہو تو یہ بہتر ہے بے خودی ہی رہے
سحر مسائل دنیا سے دے نہ دے فرصت
خیال یار کی لو تیرگی میں جلتی رہے
خبر ملے نہ کسی بھی آشفتہ خاطر کی
یہ زیست کاش فقط تیرے غم میں کھوئی رہے
وہ فاصلوں کو مٹانے کی بات کرتا ہے
قریب آنے سے کیا گر دلوں میں دوری رہے
گلے لگا کے بچھڑ جاؤ گے سدا کے لیے
تو کیوں نہ رسم کوئی مجھ سے دشمنی کی رہے