نہ دے خدا ، بندہ بھی نہیں دیتا
آدمی ہونے کا صلہ بھی نہیں دیتا
کہاں سے آیا درد مرے سینے میں
بے خبر کو اب دوا بھی نہیں دیتا
چلا کر مجھےانجان وادیوں میں
راہی کو منزل کا پتا بھی نہیں دیتا
کر کے اشکارمجھ پہ یہ شام سحر
دو گھڑی جینے کا مزہ بھی نہیں دیتا
کب چاھا دے مری ہستی کو وجود
اکھڑی سانسوں کو تو چلا بھی نہیں دیتا
دے کر خاب حسرتوں کے
میٹھی نیند مجھے سلا بھی نہیں دیتا
جلوں گا آتش جہنم میں نہیں
سنگ فاقہ کشی وہ سزا بھی نہیں دیتا
نہیں منظور رزق دیا انسان کا
بندہ ہوں تو کیوں خدا بھی نہیں دیتا