نہ شیخ کا ہے تذکرہ نہ برہمن کی بات ہے
مِری زباں پہ چند اہلِ مکر و فن کی بات ہے
کسی پہ گل کی بارشیں کسی کو خار و خس ملے
یہ باغباں کا ظرف ہے چمن چمن کی بات ہے
کسی کو خُم کے خم ملے، کوئی ترس کے رہ گیا
ہٹاؤ جانے دو تمہاری انجمن کی بات ہے
جو بو الہوس تھے ان کو تم وفا پرست کہتے ہو
چلو یہی سہی تمہارے حسنِ ظن کی بات ہے
وفا کرو جفا ملے، بھلا کرو برا ملے
ہے ریت دیش دیش کی چلن چلن کی بات ہے
ستم بھی اخترؔ اپنوں سے جو ہوں تو بھول جائیے
بھلی ہو یا بری سب اپنے ہی وطن کی بات ہے