نہ میرے سر پہ آسماں نہ پاؤں کے تلے زمیں
نہ میرا کوئی ہمنوا ، نہ میرا کوئی ہمنشیں
یہ وحشتوں کا سوختہ ، محبتوں کا سلسلہ
کسی کے پاس بھی نہیں، کسی سے دُور بھی نہیں
میں جی کے بھی نہ جی سکی ، میں مر کے بھی نہ مر سکی
مجھے خود اپنے ڈس گئے ، مثالِ مارِ آستیں
نہ میں اِسے سمجھ سکی نہ یہ مجھے سمجھ سکا
میں شاید اس جہان کی مزاج آشنا نہیں
تغیراتِ زندگی کے مرحلے عجیب ہیں
پلی کہیں بڑھی کہیں بسی کہیں مری کہیں
کچھ اور دردِ جاں گُسِل کچھ اور فکرِ بے کراں؟۔
نہیں اجی نہیں نہیں اجی نہیں اجی نہیں
اداسیوں کی سر زمیں کی سنگلاخ برف پر
گلابِ آرزو کھلے تو تھے مگر کہیں کہیں
ہے آج عاشی سجدہ ریز اُسکی بارگاہ میں
جھکی ہے جس کے سامنے حیاتیات کی جبیں