جب بھی آتی ہے مجھے رلا کے آتی یے
یے نیند بھی اب ستا کے آتی ہے
ایسا نہیں کہ اسکی ناراضگی کلیجے کا گھاؤنہیں
ہاتھ جوڑتی ہوں مگر کچھ حیا سی آتی ہے
آپکی یاد کا انتظار اب نہیں کرتی میں
وہ تو میرے پاس ہوتی ہے ,میں کیسے کہوں کب آتی ہے
ننھے ننھے ہاتھوں میں صدمہ عظیم ہے
میری تو سانس بھی لڑکھڑا کے آتی ہے
اور فرقت کا عرصہ اتنا لمبا ہوا کہ آنکھیں لٹ گئیں
وصل یار کے وقت یار نہیں آتا نظر جدائی آتی ہے