دیارِ غیر کے آ گے گرا ہے
یہ دیکھو عشق کیسا سر پھرا ہے
مجھ ہی میں عیب سو ہوں گے پر اٌن کا
جو سکہ کھوٹا ہے وہ بھی کھرا ہے
مریضِ عشق تھا، مرنا تھا اِس نے
مجھے دٌکھ ہے کہ بے منزل مرا ہے
میں کیسے مان لوں اس فیصلے کو
جو قاتل ہے وہی منصف مرا ہے
میں اس کے فن کا کب سے معترف ہوں
میرے کاندھے پہ جس کا سر دھرا ہے
دیا تھا دل لگی نے کیا وجیؔ کو
یہ کیسا زخم جو اب تک ہرا ہے
وجیؔ یہ وحشتیں بھی اٌس کا تحفہ
فقط جس کا مجھے اب آسرا ہے