کوئی خط نہیں ، کوئی پغام نہیں
کوئی آنسو نہیں ، کوئی مسکان نہیں
کوئی امید نہیں ، کوئی آس نہیں
کوئی اپنا نہیں ، کوئی خواب نہیں
کوئی کانٹا نہیں ، کوئی گلاب نہیں
کوئی محفل نہیں ، کوئی شام نہیں
کوئی عام نہیں ، کوئی خاص نہیں
ہے خاموش ایسے جیسے میرا طلبگار نہیں
ہو گیا ہے دور اتنا کہ واپسی کا کوئی امکان نہیں