کب کے بھولے ہوئے راستے کی طرف
آئو چلتے ہیں پھر میکدے کی طرف
سرخ سیال میں جاں گھلانے چلیں
پھر سے نس نس میں شعلے بہانے چلیں
آنکھیں دھل جائیں گی، خواب بہہ جائیں گے
دھند چھاجائے گی، سائے رہ جائیں گے
ہاتھ میں جام اک بار آجائے گا
دھوپ ڈھل جائے گیا
بر چھائے جائے
بعد مدت کے کتنا مزہ آئے گا
اک سفر
خودفراموشیوں کی طرف
زندگی بھر کی
خاموشیوں کی طرف