وہ سردیوں کی صبح میں
دھند میں لپٹ کر ہم جائیں
ان کچے پکے راہوں سے
اس منظر تک جو پہنچ پائیں
کہ پتوں پر جو برف جمی
رات کی سرد ہواوں سے
اب دھوپ کی کوسی کرنوں سے
وہ قطرہ قطرہ پگھلی ہے
پودوں پر دھیمی سی رنگت
اب لمحہ لمحہ نکھری ہے
کہ اتنے میں اک سیٹی سی
جو کانوں میں آ پہنچی ہو
کہ لمحہ بھر ہم ساکت سے
اس طلسم میں پھر کھو جائیں
اس آس پہ وہاں ہم بیٹھے ہوں
کہ اب اترے تو تب اترے
مگر جو اک بار جاتا ہے
وہ واپس پھر کب آتا ہے
مگر یہ منظر اپنا سا
میری آنکھوں کو یوں بھاتا ہے
کہ میں اس سحر میں کھوکر
پھر خود کو بھول جاتا ہوں
اس رستے پے چل کر
میں واپس آ نہ پاتا ہوں
پھر واپس آنہ پاتا ہوں