اجڑی ہوئی شاموں کے وحشت زدہ میخانے
ٹکڑوں میں پڑے دیکھے دہشت زدہ پیمانے
موسم کے بدلتے ہی ہر چیز نے رنگ بدلا
اپنے بھی ہوئے سارے نفرت زدہ بیگانے
آ تجھ کو دکھاؤں میں ماضی کے جھروکوں سے
لیلیٰ کی محبت میں مجنوں سے وہ دیوانے
یاں دل میں کدورت ہے، ذہنوں میں عداوت ہے
اب کون سنے مجھ سے یہ پیار کے افسانے
کیا میرے مقدر میں یہ قید ہی لکھی ہے
تاریک، گھٹن، بدبو، سیلن زدہ تہہ خانے
اسکو تو ابھی میں نے تنبیہہ بھی نہیں کی تھی
پہلے ہی لگا مجھ پر غصے سے وہ غرانے
اقرار ہے پوشیدہ انکا ر کے لفظوں میں
رشوت کو وہ لیتا ہے انداز بہ نذرانے
اک بار محبت سے شمع جو کہا اس کو
اترا کے وہ یہ بولا جل جا میرے پروانے
دامن بھی نہیں پکڑا آنچل بھی نہیں کھینچا
بڑھتے جو مجھے دیکھا وہ لگ پڑے شرمانے
چکرا کے وہ گرتے تھے تھاما جو انہیں بڑھکر
آکر میری بانہوں میں آنچل لگے لہرانے
بھولے سے خلا ف اسکے اک شعر جو لکھا تھا
بھرنے ہی پڑے اشہر اسکے مجھے ہرجانے