وحشت میں* ہوں بَلا ، گر وادی پہ اپنی آؤں
مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملاؤں
ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رُلایا
اُس کی ستم ظریفی کس کے تئیں دکھاؤں
از خویش رفتہ ہر دم فکر وصال میں ہوں
کتنا میں کھویا جاؤں یارب کہ تجھ کو پاؤں
عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی
تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تئیں چھپاؤں
آسودگی تو معلوم اے میرے جیتے جی یاں
آرام تب ہی پاؤں جب جی سے ہاتھ اُٹھاؤں