وطن کو کچھ نہیں خطرہ، نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صفِ ماتم بچھائے مرگِ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں، وہ دانشور ہے خطرے میں
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرے میں، نہ میرا گھر ہے خطرے میں
جہاں اقبال بھی نذرِ خطِ تنسیخ ہو جالب
وہاں تجھ کو شکایت ہے، تیرا جوہر ہے خطرے میں