وعدے کا بھرم رکھتے ہو،کیسا عجیب عذم رکھتے ہو
گلاب کے بکھر جانے پر بھی،گلشن کی خوبصورتی قائم رکھتے ہو
ٹوٹے ہوئے لوگوں کے بے نام سے نام رکھتے ہو
تم اپنے عالم میں الجھا سا نظام رکھتے ہو
کتنی نفاست سے دل توڑنے کا کام کرتے ہو
تم نظروں میں بے وفائی کا پیام رکھتے ہو
دانستہ آج نکل پڑے تجھ سے گفتگو کی خواہش لیے
جانتے تھے تم گفتگو میں بے رخی تعلق لا قلام رکھتے ہو