وقت کے ساتھ عناصر بھی رہے سازش میں
جل گئے پیڑ کبھی دُھوپ کبھی بارش میں
وہ تو اِک سادہ و کم شوق کا طالب نکلا
ہم نے ناحق ہی گنوایا اُسے آرائش میں
زندگی کی کوئی محرومی نہیں یاد آئی
جب تلک ہم تھے تیرے قرب کی آسائش میں
ایک دُنیا کا قصیدہ تھا اگرچہ میرے نام
لطف آتا تھا کسی شخص کی فہمائش میں
اس کی آنکھیں بھی میری طرح سے گِروی کہیں اور
خواب کا قرض بڑھا جاتا ہے اِک خواہش میں