وہ مُجھ سے بےوفائ کرنے والا ہے
ہمیشہ کی جُدائ کرنے والا ہے
چلی ہے کوئ سازش پھر رقیبوں کی
وہ مُجھ سے جو لڑائ کرنے والا ہے
اسے جو روٹھنا ہے تو چلا جاۓ
بھلا کیوں جگ ہنسائ کرنے والا ہے
ارے قاصد یہ بتلاؤ کہ اب کے وہ
کہاں پر دلربائ کرنے والا ہے
جو ہے مُجھکو رلانے کے وہ چکروں میں
چلو کچھ تو بھلائ کرنے والا ہے
یہ واضح ہے طوفانِ ہجر بالآخر
مرے گھر تک رسائ کرنے والا ہے
مُجھے محسوس باقرؔ ہو رہا ہے وہ
مرے حصے تنہائ کرنے والا ہے