وہی تاریخ وہی دن وہی مہینہ آیا ہے
بیتی ہوئی یادوں نے دل کو بہت تڑپایا ہے
جب سے اپنا دیس اپنے لئے پردیس ہوا
وہی منظر میری نظروں میں پھر لہرایا ہے
پاس ہو کر بھی کوئی پاس نہیں رہتا ہے
ایسی حالت نے میرا دل بہت دکھایا ہے
میری آنکھوں میں تیرتی اشکوں کی نمی نے
میرے چہرے کو جلایا ہے تمتمایا ہے
تم گئے تو تمہارے شہر کی گلیوں نے بھی
عجب سا طور عجب رنگ ڈھنگ اپنایا ہے
اسکی خوشبو سے مہکتے ہیں بام و در عظمٰی
گرچہ مدت سے وہ اس شہر نہیں آیا ہے