درد کے صحرا میں وہ اک رات مکمل نا ھوئی
الفاظ تھے ختم ھوئے پر بات مکمل نا ھوئی
پھر تیری بزم میں بڑے شوق سے چلے آتے مگر
وقت یوں ایسا رکا کہ ملاقات مکمل نا ھوئی
دل کی گہرائیوں سے چاہا تھا کہ تو مل جاتا
ٹوٹے سپنے وہ سبھی آس مکمل نا ھوئی
جلتے ھونٹوں سے گلابوں کے بدن کو چوما
پھول زخمانے لگے یوں بارات مکمل نا ھوئی
بہتی دریاوں کی سبھی موجیں سمندر میں اتریں
یوں پانی آنکھوں میں رہا برسات مکمل ناں ھوئی