وہ بھی کیا لوگ تھے آسان تھی راہیں جنکی
بند آنکھیں کیے اک سمت چلے جاتے تھے
عقل و دل خواب و حقیقت کی الجھن نہ خلش
مختلف جلوے نگاہوں کو نہ بہلاتے تھے
عشق سادہ بھی تھا بیخود بھی جنوں پاش بھی تھا
حسن کو اپنی اداؤں پہ حجاب آتا تھا
پھول کھلتے تھے تو پھولوں میں نشہ ہوتا تھا
رات ڈھلتی تھی تو شیشوں پہ شباب آتا تھا
چاندنی کیف اثر روح افزا ہوتی تھی
ابر آتا تو بدمست بھی ہو جاتا تھا
دن میں شورش بھی ہوا کرتی تھی ہنگامہ بھی
رات کی گود میں منہ ڈھانپ کے سو جاتے تھے
نرم رو وقت کے دھارے پہ سفینے تھے رواں
ساحل و بحر کے آئین نہ بدلتے تھے کبھی
ناخداؤں پہ بھروسہ تھا مقدر پہ یقین
چادر آب سے طوفان نہ ابلتے تھے کبھی
ہم کہ طوفان کے پالے بھی ستائے بھی ہیں
برق و باراں میں وہی شمعیں جلائیں کیسے
یہ جو آتش کدہ دنیا میں بھڑک اٹھا ہے
آنسوؤں سےاسے ہر باربجھائیں کیسے
کر دیا برق و بخارات نے محشر برپا
اپنے دفتر میں لطافت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ اندھیرا یہ تلاطم یہ ہواؤں کا خروش
اس میں تاروں کی سبک نرم ضیاء کیا کرتی
تلخئی زیست سے کڑوا ہوا عاشق کا مزاج
نگاہ یار کی معصوم ادا کیا کرتے
سفر آسان تھا تو منزل بھی بڑی روشن تھی
آج کس درجہ پراسرار ہیں راہیں اپنی
کتنی پرچھائیاں آتی ہیں تجلی بن کر
کتنے جلوؤں سےالجھتی ہیں نگاہیں اپنی