وہ تو ستم گر ہے جیت ہی جائے گا
مجھ میں بھی ظلم سہنے کی سکت نہیں رہی
لگتا ہے مجھ سے بہت اکتا گیا ہے وہ
لہجے میں اس کے پہلے سی شرارت نہیں رہی
کانٹوں بھری راہگزر ہے یہ منزل
مجھ میں بھی اب پھولوں سی نزاکت نہیں رہی
اس کو تو جنون عشق میں شائد کمی لگی
میرے بھی جذبات میں وہ شدت نہیں رہی
اس کو تو رنگ بدلنے میں پل بھی نہی لگتا
مجھے بھی اس کو آزمانے کی عادت نہیں رہی
اس کو تو چھوڑ کے جانے کا غم نہیں
مجھ میں بھی اس کو پانے کی چاہت نہیں رہی
کہنے لگا اک روز مجھے دیکھتے ہوئے
مجھے اب تمھاری محبت کی ضرورت نہیں رہی