اک خلش سی محسوس تو کرتا ہو گا
وہ جب بھی لفظ محبت سنتا ہوگا
نہ چاہتے ہوۓ بھی برسات رت میں
خود میں بھی کہیں جلتا ہو گا
مرتکب ہو کر وہ جرم ء بے وفائی کا
ہر کسی سے اب خلوص سے ملتا ہو گا
شاید کہ وہ میرا سخن ور ہو اب بھی
شاید کہ وہ میرا ازطراب پڑھتا ہو گا
وہ میری یاد کی تہمت سے بچنے کے لئیے
میرے احباب سے بھی کہاں ملتا ہوگا
کبھی چاند کبھی گل کبھی غزل کی صورت
استعاروں میں وہ میرا نام لکھتا ہو گا
ممکن ہے اسے میسر ہوں وفائیں عنبر
ہم سا بھلا اس پہ کون مرتا ہوگا