وہ جس سفرِ محبت میں تھے ہم ،وہ سفرکب کا تمام کرآۓ
سازوسامان کی بھی پرواہ نہ کی یہاں تک کہ دلِ ناداں قربان کر آۓ
رنگینیوں میں ڈوبی ہوئی دنیا اب بس سفید سیاہ کی مانند ہے
کہ جس آنے پر دیکھی تھی بہار اسے پچھلے اسٹیشن ہی چھوڑ آۓ
کیا لکھوں کیا کیا کہوں میں اس حسن شناس کی توصیف میں
وہ ستم گر جو سب بھلا چکا، ہمیں آج بھی اس کی مروت یاد آۓ
دل نشیں تو تھا بہت وہ، دل فریبی میں بھی کوئی مقابل نہیں
جسے ہم اپنا سمجھ کر جیتے رہے، وہ بھی اوروں کی محفل لوٹ آۓ
محبت تو خوش نصیبی ہے اور خوش بخت ہے وہ جسے مل جاۓ
ہم تو رقیبوں کی صف میں شمار ہوۓ, جب بھی تقسیم محبت کا وقت آۓ