وہ جس کے عشق نے سب سے جدا رکھا ہے مجھے
اُسی ہی شخص نے اکثر خفا رکھا ہے مجھے
زمانے تُو نے تو سانسیں ہی چھین لی تھیں مری
یہ تو خدا ہے کہ جس نے بچا رکھا ہے مجھے
خطِ بقا پہ کوئی نقش تو ابھرنے دے
یہ کیا زمانے سے تُو نے مٹا رکھا ہے مجھے
ضرورتوں کی زمیں پر تمہارے دنیا نے
غموں کی بھیڑ میں اب تک کھڑا رکھا ہے مجھے
اِسی لئے تو کسی کی طرف جھکا میں نہیں
مرے ہی یاروں نے اتنا بُرا رکھا ہے مجھے
میں ابنِ حوا کی دنیا کا اک بشر ہوں عقیل
خدا نے خوف کے گھر میں بسا رکھا ہے مجھ