وہ جو شہر بھر کو آفتاب تھا روشن مثال تھا
پر اُس سے مل کر مجھے عجب سا ملال تھا
زعم تھا مجھے کہ سب بلندیاں چھُو لوں گا
مگر یہ کیا کہ مجھے ہی ہواؤں کا کال تھا
وہ ایک بوند سی جو پلکوں پہ اُبھر آئی ہے
حسرتوں کی کہانی تھی کوئی قصہِ زوال تھا
وہ ہنس دیا کہ ہجر کا موسم تو سب پہ آتا ہے
میں مسکرا دیا کہ کچھ الگ سا اپنا حال تھا
نشاطِ سُخن وری میں اُسے سمجھ نہ سکا تھا
پلکیں بھیگی کیوں تھیں، وہ کیسا سوال تھا
لفظ مرے تھے پر ربط اُس نے باندھا تھا
اُن اُنگلیوں میں آصف عجب سا کمال تھا