وہ جو کہتا تھا کہ آبرو تیری مجھے جان سے ذیادا عزیز ہے
سر بازار اب اچھالتا ہے وہ قصے میری رسوائی کے
وہ تو معصوم تھا میری محبتوں کی طرح لوگو
نہ جانے کس نے سکھائے اسے انداز بے وفائی کے
میری ذات سے آج کوئی مطلب نہیں اسے
کرتا تھا جو دعوے کبھی مجھ سع ہمنوائی کے
میں نے اپنی آنکھیں ہی اس کی دہلیز پا دفنا دیں
تاکہ اسے شکوے نہ رہیں مجھ سے کم نگاہی کے
تاریکی ہجر کے سوا کچھ آتا نہیں نظر
ساتھ اپنے لے گیا وہ سبھی رنگ میری بینائی کے
خوف سے جنکے راتوں کی نیندیں ہوئی برباد میری
ہائے آخر سچ ہوے وہ خدشے تیری جدائی کے
میں جا رہی ہوں چھوڑ کر یہ بے حسوں کی دنیا روپ
اسے کہنا شوق سے منائے جشن اب میری جگ ہنسائی کے