وہ خواب بھکر گئے جو پلکوں پہ سجائے ہم نے
بُجھ گئے وہ چراغ جو محبت کے جلائے ہم نے
ہمارے دل میں لگی آگ پھر نہ بُجھ سکی
بجھانے کے لیے کتنے اشک بہائے ہم نے
جی بھر کے ہم تنہائی میں بہاتے ہیں آنسو
محفل میں چھلک پڑے لاکھ چھپائے ہم نے
وہی پُھول آج ہم کو کانٹے بن کر چھبے
جو پلکوں پہ اپنی تھے سجائے ہم نے
ذرا ٹھہر ذرا رُکیے ذرا سُنیے مسعود
ابھی کہاں اپنے دل کے زخم دکھائے ہم نے