وہ درد نہ رہا وہ الم نہ رہا
وہ رت نہ رہی وہ موسم نہ رہا
غم تو اصل میں تنہائیوں کا تھا
جب تنہائی نہ رہی کوئی غم نہ رہا
سیدھی کر کے دیکھیں جب سے راہیں اپنی
زندگی میں پھر ہماری کوئی خم نہ رہا
اشکوں سے میرے سب دھل گئے ہیں شائد
سینے پہ اب میرے کوئی زخم نہ رہا
دو لفظوں سے کسی کے رو پڑتا ہے
دل پہ کبھی جو تھا بھرم نہ رہا