وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
Poet: رخشندہ نوید By: Tooba, Lahoreوہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی 
 انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی 
 
 وہ ان کو جانتے ہیں اور ان کے حال دل کو 
 سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی 
 
 ہمارے درمیاں یہ دکھ ہی قدر مشترک ہیں 
 سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی 
 
 بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے 
 بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی 
 
 بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو 
 بپا اک بزم شعر و شاعری کرنی پڑے گی 
 
 بہت مدت سے ہنسنا بھول کر بیٹھی ہوئی ہے 
 تمہیں رخشندہؔ شاید گدگدی کرنی پڑے گی
More Sad Poetry






