وہ رنگ تمنا ہے کہ صد رنگ ہوا ہوں
دیکھو تو نظر ہوں جو نہ دیکھو تو صدا ہوں
یا اتنا سبک تھا کہ ہوا لے اڑی مجھ کو
یا اتنا گراں ہوں کہ سر راہ پڑا ہوں
چہرے پہ اجالا تھا گریباں میں سحر تھی
وہ شخص عجب تھا جسے رستے میں ملا ہوں
کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں
جب آندھیاں آئی ہیں تو میں نکلا نہ گھر سے
پتوں کے تعاقب میں مگر دوڑ پڑا ہوں