وہ سادگی نہ کرے کچھ بھی تو ادا ہی لگے
وہ بھولپن ہے کہ بے باکی بھی حیا ہی لگے
یہ زعفرانی پلو اسی کا حصہ ہے
کوئی جو دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے
نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
یہ کھڑکی کھولو، صبح کی ہوا ہی لگے
عجب شخص ناراض ہو کے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے
جنیئس تو اور ہیں لیکن کوئی کہاں تم سا
جو دل جلائے پھر بھی دلربا لگے
ہزاروں بھیس میں پھرتے ہیں رام اور رحیم
کوئی ضروری تو نہیں ہے بھلا بھلا ہی لگے
دعا کرو یہ پودا سدا ہرا ہی لگے
اداسیوں میں بھی چہرہ کھلا کھلا ہی لگے