وہ سمجھتا ہے میں اسے جلد بھول جاؤں گا
اور میری آنکھوں میں ہر لمحہ نمی رہتی ہے
کیسے مان لوں وہ بے وفائی کر جائے گا
دل کی دھڑکن اس کے وعدوں پہ تھمی رہتی ہے
اس کی یادوں کا احساس مجھے مرنے نہیں دیتا
کیوں یہ تنہائی خود سے بھی سہمی رہتی ہے
میں ان لمحات کو اوراق میں کب تک قید رکھوں
تیرے الفاظ پہ درد کی اک تہہ جمی رہتی ہے
میری وفائیں نجانے کن رنگوں میں کھو گئیں
ان اداس شاموں میں عجب غمی رہتی ہے
تو پلٹ آیا ہے تو بہت خوش ہوں میں
اب تیرا ساتھ ہو کر بھی تیری کمی رہتی ہے