وہ شخص انا پرست تھا اس کی باتوں میں اقرار بھی تھا
اِس کے چبھتے ہوئے لہجے میں چُھپا ہوا پیار بھی تھا
وہ مجھے لکھتا تھا ہر وقت کہ میرا انتظار نہ کیا کرو
لیکن اِس کی تحریر میں صدیوں کا انتظار بھی تھا
وہ کہتا تھا کہ نہ روٹھو مجھ سے مُجھے منانا نہیں آتا
میری ناراضگی پر لیکن وہ بے قرار بھی تھا
میں شاہد پھر نہ لکھتا اِسے اپنی خیر خبر کبھی بھی
محبت کا بھرم رکھنا تھا کچھ دل بے اختیار بھی تھا
شاہد اِس کا یہی انداز ہو محبت کرنے کا مسعود
وہ میرا ہمدرد بھی تھا اور ستم گزار بھی تھا