ڈھونڈتیں ہیں جس کو نظریں وہ شخص نجانے کدھر گیا
میرا رقیب تھا میرا ہی سایہ کل رات چپکے سے مر گیا
پھر وقت گزرا اور شام بیتی دروازہ صبح تک کھلا رہا
اور جسکی راہ میں تھیں نظریں بچھائیں وہ آ کے یونہی گزر گیا
میرے مزاجوں کے سارے موسم اسکی یادوں میں گم رھے
یوں آنکھ کا آنسؤ دریا بن کر دل کے سمندر میں اتر گیا
سؤنی ھوئی ہیں پھر سے گلیاں اور بے آسرا شہر کی فضائیں
اور میرے نشیمن پے گرا کے بجلیاں چپکے سے اپنے گھر گیا