وہ مجھ سے بیماری دل کا سبب پوچھتے ہیں
صحتیاب ہونے لگے ہیں اور اب پوچھتے ہیں
طوفان بستی سے ہو کے گزر جاتاہے جب
ہمسائے قبیلے لوگوں کا حال تب پوچھتے ہیں
کبھی کسی ہجرے میں آ گ بھڑک آ ئے تو
قصداً ہوا کے جھونکوں کو وہ خوب پوچھتے ہیں
جہاں بھر کے ز خم نام کرنے کے بعد
کوئی مفلوج ہو جائے تو سب پوچھتے ہیں
اک رات کیا جاگ کر گزار دی میں نے
الفاظ بھی حیرت سے راز شب پوچھتے ہیں
دل ہی دل میں یوں اتنے اشعار کہہ دیے ہیں
زباں پہ کب آ ئیں گے"یہ لب پوچھتے ہیں"
بے وجہ جو خیال ذہن بیان کر رہی ہو ماہم
اتنے جو بیٹھے ہیں وہ کب پوچھتے ہیں؟