وہ کس پہ کس طرح کھلا، کھلا نہیں
مکمل آج تک خدا کھلا نہیں
مَیں خاک ہوں کہ نور کا ظہور ہوں
مَیں عکس ہوں کہ آئینہ، کھلا نہیں
وہ جس نے تشنگی کے ہونٹ تر کیے
وہ اَشک تھا کہ آبلہ، کھلا نہیں
ابھی کہاں ہوا ہے یہ سفر تمام
تمام رنگِ کربلا، کھلا نہیں
سفر کے باوجود مَیں وہیں پہ ہوں
زمیں نہیں کہ راستا، کھلا نہیں
وہ مجھ پہ کھل گیا تو مجھ پہ یہ کھلا
کہ مجھ پہ کھل گیا ہے کیا، کھلا نہیں