ویسے تو اس گھر کو اس نے چاہے کم خوشحالی دی
بیٹا بر خوردار دیا اور بیٹی حوصلے والی دی
غصے میں دونوں نے اک دوجے کے ہاتھ کو جھٹکا تھا
اور اب سوچ رہے ہیں پہلے کس نے کس کو گالی دی
کچھ میں خود بھی ہر اک شخص کی باتوں میں آ جاتا ہوں
کچھ ویسے بھی اس نے مجھ کو صورت بھولی بھالی دی
ورنہ کام تھا میرا تو پھولوں سے رزق کمانے تک
پھر اس نے اک باغ کی میرے ہاتھوں میں رکھوالی دی
دھوپ بڑھی تو وہ بھی اپنے اپنے پاؤں کھینچ گئے
میں نے اپنے حصے کی جن پیڑوں کو ہریالی دی
دل نے میری ایک صدا پر دونوں ہاتھوں دان کیا
جب زنبیل محبت نے جذبات سے مجھ کو خالی دی
تو بھی مان گیا اے دوست کہ دریا صرف ڈبوتا ہے
میرے بارے میں دنیا نے تجھ کو خام خیالی دی
پہلے میری آنکھوں سے سرمایہ چھینا نیندوں کا
بدلے میں پھر ہجر نے میری آنکھوں کو یہ لالی دی
وہ ہی دے گا مجھ کو پھر تعمیر اٹھانے کی ہمت
جس نے حسنؔ ان بام و در کو اتنی خستہ حالی دی