فرط جذبات سے آنکھیں ہیں چھلکتی جاتی
لرزاں ہے بدن روح ہے تڑپتی جاتی
میرے مولا تیری دھرتی پہ قیا مت سی بپا ہے
وحشت ہے ہر گام ہے بڑھتی جاتی
دشمن ہے کہاں وجہ تنازعہ کیا ہے
آتش ہے ہر سمت سلگتی جاتی
خوں بار فلک ہے میری ملت کے لہو سے
حالت ہے کہ ہر لمحہ بگڑتی جاتی
اغیار سے بے سود ہے شکوہ و شکایت
اپنوں سے ہے یاں بات الجھتی جاتی
لاشے جو تڑپتے ہیں تو کربلا کا سماں ہے
قیصر میری بستی ہے اجڑتی جاتی