ٹکڑے ٹکڑے یوں جسم و جان بنٹا
جیسے اَجداد کا مکان بنٹا
زندگی جب بنٹی سوالوں میں
پرَچے پرَچے میں امتحان بنٹا
پہلے جی بھر کے دل کا خون کیا
پھر کہیں جا کے کچھ دھیان بنٹا
جیسے کہ مال ہو غنیمت کا
اسطرح ہر متاعِ جان بنٹا
کیا عجب اِرتقائے آدم ہے
حصےّ بخرے میں یہ جہان بنٹا
ایک تم ہی نہیں بنٹے انور
چاند تاروں میں آ سمان بنٹا