اک ذرا ٹھوکر زمانے کی لگی بے خودی جاتی رہی
رفتہ رفتہ ہوش میں آتے گئے مہ کشی جاتی رہی
جانے اب کے کس رنگ سے آئی بہار
مروت کی وہ خوشبو تازگی جاتی رہی
اک ذرا سی دیر میں پہچانے گئے
دشمنی اور دوستی جاتی رہی
سلسلہ یہ روز اول کا ہے زندگی اور موت کا
موت کی آغوش میں زندگی جاتی رہی
اک کرم سے عیب میرے چھپ رہے
اک غضب سے بندگی جاتی رہی