ٹھہرے میرے اشکوں کا کچھ مول تو سہی
کچھ تلخ ہی صحیح مگر تو بول تو سہی
کیسے لگاؤ گے تم شب ہجر کا حساب
بھاری ہے اک اک لمحہ تول تو سہی
اچھا ہے وقت رخصت ساتھ رہو گے تم
میں پیتا ہوں زہر ابھی تو گھول تو سہی
خوب ہے یہ عادت سخن یار کی
کھلیں گے اسطرح کچھ پول تو سہی
بنا بیٹھا ہے گداگر تیرے در پہ کب سے
خواہش ہے کہ جانے کو بول تو سہی
بنا لیتا ہے دیوانہ اسے اپنا تکیہ کلام
سن لے محبوب کا اک قول تو سہی
ہوا کو بنا لے زخم دل کا رازداں
عیاز دامن کو تو اپنے کبھی کھول تو سہی