ٹھہر جائے حسن اگر قلب میں تو کیا ہو گا
ذرا کثف میں بھی خون رواں دواں ہو گا
سب الطاف ایک ہی لطف دیں تو کیا ہو گا
افکار کا اور من کا ایک ہی راستہ ہو گا
خار و گل کا امتزاج ختم ہو تو کیا ہو گا
رازداں کے راز سے پردہ ذرا اٹھا ہو گا
اے عارض موج دل گر حق ہو تو کیا ہو گا
نفس گمراہ پہ یوں حکم اس کا عیاں ہو گا