ہم جن اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
بہتر ہے خاک ڈالئے ایسی اڑان پر
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
تصویراپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر
یارو‘ میں اس نظرکی بلندی کو کیا کروں
سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر
کتنے ہی زخم ہیں میرے اک زخم میں چھپے
کتنے ہی تیرآنے لگے اک نشان پر
جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر